وقت، واقعات اور کشف
واقعات اور ان کا ظہور: یہ سمجھنے کے بعد انسانی نفس ایک مستقل حقیقت ہے جو جسمانی موت کے بعدبھی زندہ رہتا ہے‘ تحقیق کا ایک بہت اہم پہلو اس کا مستقبل اور ماضی میں ممکنہ سفر ہے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات خصوصی طور پر قابل غور ہیں۔٭ کیا انسان کا غیرمادی وجود وقت کے آگے پیچھے جاسکتا ہے؟٭ کیا دنیا میں جو واقعات معرض وجود میں آتے ہیں وہ وقت کی جانب (Time Dimension) میں پہلے ہی سے موجود (Programmed) ہیں؟ان سوالوں کے جواب میں ہم سمجھتے ہیں کہ وقت متواتر حرکت میں ہے اور مستقبل سے ماضی کی طرف جارہا ہے اور اپنے ساتھ واقعات کو بھی بہاتے جاتا ہے۔ واقعات اور وقت کی مثال ایسے ہے جیسے پانی کا دریا اونچائی سے نیچائی کی جانب بہہ رہا ہو اس کے ساتھ ساتھ پانی کے اوپر تیرنے والی چیزیں بھی نیچے کو آرہی ہوتی ہیں اور بالآخر یہ سب سمندر کی وسعت میں گم ہوجاتے ہیں۔ اگر انہیں واپس نکالنا ہو تو غوطہ خوروں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن وہ بھی اسی قدر کرسکتے ہیں جتنی ان کی استطاعت اور ہمت ہو۔
اس بہتے دریا کے ہی کنارے انسان کھڑا ہے‘ تھوڑے عرصہ کیلئے تیرنے والی چیزیں اس کے سامنے سے گزرتی ہیں اور وہ ان سے اثرات لیتا ہے انہی سے اسے پانی کے بہنے کا احساس ہوتا ہے‘ اگر فرض کرو کہ سطح آب کے اوپر کچھ نہ ہو تو پانی کی حرکت کا احساس تک بھی نہ ہو۔ یہی حال واقعات کا ہے‘ انہی سے وقت کے بہاؤ اور اس کی رفتار کا احساس ہوتا ہے۔
فرض کرو آپ ایک دریا کے کنارے کھڑے ہیں جس کی سطح آب پر کئی طرح کی چیزیں تیرتی ہوئی آپ کے سامنے سے گزر رہی ہیں۔ اگر کوئی آدمی تیزی سے اوپر کی طرف چل پڑے تو وہ تیرتی ہوئی چیزوں کو اپنی جگہ پر پہنچنے سے پہلے ہی دیکھ کر واپس آسکتا ہے اسی طرح یہ ممکن ہے کہ انسانی نفس وقت کے بہاؤ کے خلاف سفر کرتا ہوا مستقبل میں چلا جائے اور یوں آنے والے واقعات کا بہت پہلے مشاہدہ کرلے لیکن جیسے دریا کے بہاؤ کے خلاف جانے کیلئے خصوصی محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے اسی طرح نفس کو بھی مستقبل میں سفر کیلئے خصوصی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
ماضی سمندر کی طرح ہمارے سامنے گزرتے ہوئے تمام واقعات کا سٹور ہاؤس ہے یعنی یہ واقعات کو ختم نہیں کرتا بلکہ ان کو محفوظ کرلیتا ہے۔ اگر کوئی باہمت غوطہ خور ہو تو اس کے اندر جاکر ان کو پھر سے دیکھ سکتا ہے۔ ایک طرح سے واقعات انسانی یادداشت میں بھی سٹور ہوتے جاتے ہیں۔ یہ ماضی کے متبادل نظام ہے یہاں واقعات اپنا عکس چھوڑ کر جاتے ہیں۔ ان کو ہم یاد کرکے ذہن ہی میں دوبارہ دیکھ لیتے ہیں لیکن یہ اصل کا عکس ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ٹیلی ویژن کی سکرین ہے جس پر نظر آنے والے واقعات اصل کا گمان ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ کسی سٹوڈیو میں ہونے والے واقعات کا عکس ہوتے ہیں یعنی اصل واقعات اگرچہ کسی دور کی جگہ ہوتے ہیں لیکن ان کا عکس آپ کے گھر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
خواب اور خوابوں کی حقیقت: ہم میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی خواب ضرور دیکھا ہوگا جو بعد میں حقیقت ثابت ہوگیا اگر وہ واقعہ کسی باطنی دنیا میں پہلے سے موجود نہ تھا تو یہ کیسے ممکن ہوا؟ حقیقت یہی ہے کہ واقعات وقت کے دھارے پر پہلے سے ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ خوابوں میں ہماری روح انہیں مستقبل میں پہنچ کر دیکھ لیتی ہے بعد میں اللہ تعالیٰ کے پروگرام کے مطابق وہی واقعات عالم شعور میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں اسے ہم حال کہتے ہیں جس کے ایک طرف مستقبل ہے اور دوسری طرف ماضی۔ یعنی حال بذات خود کوئی وقفہ نہیں۔ یہ ایک سیکنڈ ہے نہ یہ ایک گھنٹہ بس ایک انتہائی باریک لمحہ ہے جس لمحہ واقعہ عام لوگوں کے سامنے آتا ہے اور ماضی کے سٹور ہاؤس میں غائب ہوجاتا ہے۔ہم مستقبل میں کیسے سفر کرسکتے ہیں۔ اس کے جواب پانے کیلئے کچھ لوگوں نے بڑی ریاضتیں اور محنتیں کی ہیں اور انہیں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو قدرتی طور پر خاص عطا ہوتی ہے اور وہ بڑی آسانی سے سچی پیشن گوئی کرلیتے ہیں۔ انہی میں ایسے بھی ہیں جنہیں سچے خواب دیکھنے کا ملکہ ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل میں ہم وقت کے دھارے پر سفر کی ایک حقیقت کو ایک انگریز محقق کی کوششوں کے حوالہ سے ذکر کریں گے۔
اس انگریز فوجی کرنل کا نام جے ڈبلیو ڈیون تھا۔ 1899ء میں انہیں کچھ سچے خواب دیکھنے کا تجربہ ہوا جس نے انہیں بہت متاثر کیا۔ ان کا رویہ ایک عام آدمی کا سا نہیں تھا بلکہ وہ چونکا کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اس نے جو کچھ خواب میں دیکھا ہے کچھ ہی دنوں کے بعد وہی حقیقت بن کر اس کے سامنے آگیا۔ جب اس نے اس بات کی تہہ تک پہنچنے کا تہیہ کرلیا اور سائنسی انداز میں اس بات کو جاننے کی کوشش کی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ غیب خواہ مستقبل میں ہو یا ماضی میں وہ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کیلئے بیتاب ہے۔
عالم نیند میں جب آدمی کا ذہن مادی دنیا سے کٹ جاتا ہے تو اس کا نفس اس وقفہ میں وقت کی دونوں جانب نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جو بھی محنت کرتا ہے وہ پالیتا ہے مَن طَلَبَ وَجَدا وہاں جو کچھ پڑا ہے وہ دیکھ لیتا ہے لیکن صبح اٹھنے تک بہت سی معلومات ذہنی انتشار کا شکار ہوجاتی ہیں۔
کرنل ڈیون نے تحقیق کے بعد معلوم کیا کہ عام طور پر صرف دس میں سےا یک آدمی خواب یاد رکھتا ہے لیکن وہ بھی اس میں سے زیادہ تر بھول جاتا ہے بلکہ کئی نئی باتیں بھی اپنے خواب میں شامل کرلیتا ہے یعنی دیکھے گئے خواب جھوٹے نہیں ہوتے لیکن یادداشت کا انتشار ان کو مکدر کردیتا ہے۔ اس نقص کو دور کرنے کیلئے کرنل ڈیون نے لندن میں باقاعدہ ایک ریسرچ گروپ قائم کیا جس میں سائنسدان اور سائیکالوجسٹ شامل تھے اور موضوع پر بڑا قابل قدر کام کیا۔ اس کی کچھ تفصیلات ذیل میں دی جارہی ہیں۔ یہ تفصیلات ان کی کتاب ’’وقت کے ساتھ ایک تجزیہ‘‘ (An Experiment with Time) سے لی جارہی ہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں